خواتین کے حقوق کا ارتقاء

خواتین کا عالمی دن مارچ 2020 اور ان کی بینلالاقوامی سطح پر ترقی

 

1911 سے 8 مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن بینالاقوامی سطح پر خواتین کی معاشی،سوشل، ثقافتی، سیاسی کامیابیوں اور مساوات میں ترقی کو منایا جاتا ہے۔  تاکہ خواتین اور بچیوں کی زندگی کو  بہتر بنایا جا سکے۔مارچ کے مہینے میں بینالاقوامی،نیشنل اور علاقی طور پر تقریبات کا انعقادکیا جاتا ہے جن میں درجہ ذیل موضوعات عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک،خواتین کو با اختیار بنانا،ملازمتوں اوربہتر گھروں تک رسائی والے موضوات پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔

مہم کے آغاز کا مختصر خلاصہ

بیسویں صدی کے آغاز میں خواتین پر جبراورعدم مساوات کے بارےمیں ان سرگرمیوں کا آغازہوا۔1911 میں آسٹریا،جرمنی،ڈنمارک اور سوئزرلینڈمیں خواتین کا بینالاقوامی دن پہلی دفعہ منایا گیا۔ اس دن ایک ملین خواتین اورمردوں نے خواتین کےملازمت کرنے،ووٹ دینے،سرکلری دفاتر میں ملازمت،پروفیشنل ٹرینگ حاصل کرنے اور خواتین کے خلاف تعصب کے بارے میں آواز اٹھائی۔ 2011 میں جب 140 امیگرینٹ خواتین جب ایک حادثے کا شکار ہوئیں تو نیویارک دو تقریبات منعقد کی گئیں جس میں 15000 خواتین نے حصہ لیا۔اور اس بات پر زور ڈالا گیا کہ امریکہ میں خواتین کی ورک کنڈیشنز اور لیبر لاء کو بہتر بنایا جائے خواتین میں غربت کا تناسب اور منصفانہ روزگار بریڈاینڈ روزتنظیم کی مہم کا ایک اہم حصہ تھا جو کہ خواتین کے عالمی دن پر اٹھایا گیا۔

جہاں مغربی دنیا میں خواتین کی نجات کی مہم چل رہی تھی وہیں روسی خواتین نے 1917 میں امن کےلیے جنگ سے پہلے ایک مہم کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد تقریبآ 2 ملین فوجیوں کے مرنے کے بعد بریڈ اینڈ پیس کی مہم کا آغاز ہوا۔ بہت سے دوسرے ممالک نے یکجہتی کے اظہار کے طور پر ہڑتالوں،مارچز کا انعقاد کیا۔

خصوصا امریکہ میں بہت سی مہمات کا آغاز ہوا جو کہ خواتین کے مساوی حقوق کے لیے بہت معاون ثابت ہوئیں۔ ساٹھ اور ستر کی شروع کی دہائی میں ویمن لیبریشن موومنٹ نے خواتین کی ملازمتوں میں،تعلیم میں ،پروفیشنل لیول پراور ڈریس کوڈ پر مساوی حقوق پر بہت کام کیا۔ خواتین اور بچیوں کو آج جو حقوق حاصل ہیں وہ ان تمام کوششوں کا نتیجہ ہیں۔

یو این کا خواتین کےبینالاقوامی دن اور ان کے حقوق کو پرموٹ کرنے میں کردار

یو این نے45 سال پہلے 1975 میں خواتین کا عالمی دن پہلی مرتبہ منایا۔ اس کے دو سال بعد باقاعدہ ریزولوشن پاس کر کے ویمن رائٹس اور انٹرنیشنل ڈےآف پیس کو تمام  یو این کے ارکان ممالک سال کے کسی بھی دن منائیں گے۔ اس سلسلےمیں چار کانفرنسوں کا انعقاد یو این کے جھنڈے تلے ہوا۔

ان میں سے چوتھا بیجنگ ڈیکلیریشن اینڈ پلیٹ فارم آف ایکشن تھا جس نے خواتین اور لڑکیوں کی امپاورمنٹ کے لیے ہر سال منقعد کی جانے والی تقریبات کے لیے راہ ہموار کی۔

ان تقریبات میں خواتین پرتشدد،غیرت اور جنسی مساوات جیسے مسائل پر روشنی ڈالی گئی۔ بیجنگ پلیٹ فارم فورم فور ایکشن میں درجہ ذیل مسائل پر روشنی ڈالی گئی غربت،تعلیم،خواتین کی تربیت،صحت،ان کی معاشی صورتحال،انسانی حقوق،آک بڑھنے کے موقع،میڈیا میں خواتین کی صورتحال،بچیوں کے حقوق وغیرہ اور ان کے بارے میں حکمت عملی کے طریقے وضع کیے گئے۔

2000 مییں خواتین کےحقوق کے بارے میں بینالاقوامی طور بات چیت یکدم رک گئی اور لفظ ایف [فیمینزم] بہت سے ملکوں اور کمیونٹیز میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھا۔ اور بہت سی جگہوں میں فیمینیزم کے بارے میں یہ تصور کیا جانے لگا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی فیملی کو توڑ دیں یا بہت سی خواتین نے یہ سوچاکہ خواتین سے متعلقہ تمام مسائل کو حل کر لیا گیا ہے ۔

2020 کی صورتحال

اس سال یو این کا نعرہ یہ تھا کہ میں مساوات پر یقین رکھنے والی نسل ہوں جو کہ خواتین کے حقوق کومساوات کو پائہ تکمیل تک پہنچائے گی- یہ تھیم یو این کثیرالجہتی مہم کا حصہ ہےجو کہ بیجنگ ڈیکلیریشن اینڈ پلیٹ فارم فورایکشن کی 52 ویں سالگرہ کومنانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے- آج ہم نے خواتین کے معیار زندگی کو بہتر بنانے،ان کی تنخواہوں میں اضافے اور ان پر تشدد کے واقعات کی روک کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ آج ہم ان موضوعات کی بابت کہاں کھڑے ہیں؟

آج کی دنیا میں خواتین کی موجودہ صورتحال

تازہ ترین رپورثس کے مطابق

  • کینڈا میں مردوں اور خواتین کے درمیان معاشی بفرق کو مٹانے یں تقریبا 164 سال لگیں گے۔ جب ہم مردوں اور خواتین کے درمیان معاشی مساوات کی بات کرت ہیں تو کینڈا 36 ممالک میں سے 31ویں نمبر پر ہے ۔                                                                                                                
  • کینڈا میں خواتین.84 سینٹ بناتی ہیں ہر اس ڈالر کے مقابلے میں جو کہ مرد بناتے ہیں                                                                              ۔

انڈیجنس خواتین،سودیشی خواتین اور وہ خواتین جو کسی معذوری کا شکار ہیں وہ تو بہت ہی کم تنخواہ لیتی ہیں۔

  • ہر روز بہت سے شیلٹر تقریبا 379 خواتین اور بچوں کو واپس بھیج دیتے ہیں کیونکہ ان کے شیلٹر میں بلکل جگہ نہیں ہوتی۔
  • 2017 میں تقریبا 75399خواتین نے اپنے پر تشدد کے واقعات کو درج کروایا۔
  • اور جہاں تک مساوات کا تعلق ہے تو یہ 14 واں سال ہے جس میں آئس لینڈ سر فہرست ہے اس کے بعد فن لینڈ،سویڈن،ناروے اور ڈنمارک آتے ہیں۔
  • جہاں پر سیاسی طور پر خواتین کی شمولیت کا ذکر ہے تو اس سلسلے میں بہتیری حاصل کرنے اور مردوں اور عورتوں کے درمیاں مساوات قائم کرنے میں تقریبا 95 سال کا عرصہ درکار ہے۔
  • 2019 میں پارلیمنٹ کے لیول پر خواتین کے پاس25.5% سیٹیں تھیں اور21.2% منسٹریز کی سیٹیں تھیں۔
  • تعلیمی سطح پر خواتین اور مردوں میں مساوات تک پہنچنے میں تقریبا 12 سال لگیں گے۔
  • معاشی طور پر مساوات حاصل کرنے میں تقریبا 257 سال کا وقت درکار ہے ۔

 

ان تمام مسائل کو بہترین سطح پر لانے میں ویسٹرن یورپ نے کافی ترقی کی ہے۔

خواتین اور مردوں کے درمیاں مساوات میں) ( 76.7% اور اسکے بعد نارتھ امریکہ میں 72.9%) (اور لاطینی امریکہ اور کریبین میں (72.2%) ایسٹرن یورپ اور سینٹرل ایشیاء میں (71.3%) افریقہ میں (68.2%) ساوتھ ایشیاء میں(66.1%) اور مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ میں (60.5%)

کتنے مزید سال درکار ہیں؟تو یہ کہنا بےجا نا ہو گا کہ ویسٹرن یورپ میں تقریبا 54 سال اورنارتھ امریکہ کا سکور تو سب سے کم رہا جو کہ 151 سال ہے۔

خواتین اور مردوں کے درمیاں مساوات کی حالیہ رپورٹس

173 ملکوں میں سے تقریبا) 90%155 (ملکوں میں کوئی نا کوئی ایسا قانون موجود ہے جو کہ خواتین کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔

  • 66%تقریبا) 118( ملکوں میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی ہے یا انہیں کام کرنے کے لیے مردوں کی اجازت درکار ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کی ملازمت اختیار کریں ۔
  • ٪31 ملکوں میں خواتین کو پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے اپنے شوہروں سے اجازت لینی پڑتی ہےاور بہت سی شادی شدہ خواتین اپنے بچوں کی شہریت حاصل نہیں کر سکتیں۔
  • تقریبا28٪ ممالک میں مردوں کو گھر کا سربراہ مانا جاتا ہے اور عورتوں پر فرض ہے کہ وہ انکا حکم مانیں۔
  • تقریبا 38٪ )65 (ممالک نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے ترقی پذیر ممالک نے اپنے ممالک کے قوانین میں تقریبا 94 اصلاحات کی ہں تاکہ خواتین کے حقوق کو بہتر بنایا جاسکے ۔
  • گھریلو تشدد کے زمرے میں 73٪ تقریبا )127( ممالک نے نئے قوانین کا اجراء کیا ہے
  • تقریبا 10٪18 یو این کے ارکان ممالک جن میں کینڈا،پیرو،نیبیا میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں ہے جو کہ خواتین کے لیےرکاوٹ کھڑی کرے ۔
  • مڈل ایسٹ کے ممالک اور نارتھ افریقہ میں خواتین کی ملازمتوں کے لحاظ سے سے بہت امتیازی سلوک والے قوانین نافذ ہیں۔
  • پچھلے دوسال میں ساؤتھ ایشیاء کے چند ممالک مثلا افغانستان،پنگلہ دیش اور پاکستان نے خواتین کی بہتیری کے لیے چند نئ اصلاحات کا اجراء کیا ہے۔
  • تقریبا 24٪ )41 (ممالک میں خواتین کی فیکٹری میں ملازمتوں کی ممانعت،رات کو گھر سے باہر کام کی اجازت نہیں دی جاتی۔ روس میں تقریبا 456 ملازمتوں کی خواتین کو اجازت نہیں۔
  • اس بات کا بھی مطالہ کیا گیا ہے کہ تقریبا آدھے سے زیادہ ممالک میں خواتین کو پٹرنٹی لیو نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے زیادہ تر بچوں کی ذمہ داری عورتوں  پڑ جاتی ہے ۔
  • تقریبا 20٪ (35)ممالک میں خواتین کے وارثت میں حقوق مردوں کے برابر نہیں ہیں اگر ان کے شوہر وفات پا جاتے ہیں تو اکثر انہیں اپنے حصے سے دستبردار ہونا پڑتا ہے-

یونان صنفی مساوات کی ترقی کی صف میں آج کہاں ہے ؟

100 میں سے 51۔2 پوائنٹس حاصل کرتے ہوۓ ای یو کے حساب سے صنفی مساوات کی ترقی کی صف میں آخر میں کھڑا ہے۔ اور اس نے 2005 سے 2017 تک صرف 4-4 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے باوجود 2005 میں یونان نے صنفی ترقی کے معا ملے میں بہت کم ترقی کی ہے۔جبکہ شعبہ صحت میں (83.5)؛ معاشی معاملے میں (71.4)کا اضافے کےباوجود 2005 تک یونان میں سب سے کم اضافہ گردانا گیا ہے۔ یونان میں تعلیم کے سیکٹر میں (8.5)پوائنٹس اضافہ ہوا ہےجبکہ وقت کے معاملے میں (-1.5) کمی ہوئی ہے۔

2005 سے 2017 یونان کا انڈیکس سکور بڑھا ہے لیکن ای یو کے مقابلے میں اس تمام عرصے میں کمی واقع ہوئی ہے۔ صنفی مساوات کے حوالے سے یونان میں بہت کم رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ای یو کے مطابق ضنفی مساوات میں قدرے بہتری آئی ہے ۔

حقیقی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو 2020 میں بینالاقوامی طور پر ابھی بھی خواتین پر تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ می ٹو مومنٹ کے مطابق نارتھ امریکہ میں جنسی تشدد اور تنخواہوں میں ابھی تک بہتری واقع نہیں ہوئی اور بہت سے ممالک میں خواتین کے کام کرنے کی کنڈیشنز ابھی پھی بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔ خواتین کی غربت ابھی بھی بہت بڑا ایشو ہے۔ ہمارا پیغام کیا ہے؟ ہمیں ابھی بھی خواتین کو خود مختار بنانے ،تعلیم یافتہ بنانے اور انہیں ہر جگہ سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔ صنفی مساوات ابھی واقع نہیں ہوئی ہے ۔